جمعرات، 12 اکتوبر، 2017

رامیس دوم

تین ہزار سال پہلے کی بات ہے مصر کی سرزمین میں ایک حکمران ’’رامیسس دوم‘‘ کی حکومت تھی ۔کہتے ہیں کہ وہ چند معاملات میں بہت سخت تھا ۔ایک یہ کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرتا تھا اور اپنے انتہائی عزیز شخص کو بھی معاف نہیں کرتا تھا۔اس کی دوسری عادت یہ تھی کہ بیت الخلاء کے لیے انتہائی پردوں کا انتظام کرتا تھا اور اپنی داڑھی کا بہت خیال رکھتا تھا ۔ ’’رامیسس دوم‘‘ کامیاب حکمرانی کر رہا تھا ۔پوری سلطنت پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی باوجود اس کے کہ اس نے اپنی حکومت میں بہت سارے ظالمانہ قانون رائج کیے ہوئے تھے لیکن اس کا ظلم ابھی انتہا کو نہیں پہنچا تھا۔ایک دن نجومیوں نے اسے بتایا کہ یہ سال تمہارے لیے بہت برا ہے کیوں کہ اس سال ایک لڑکا ایسا پیدا ہو گا جو تمہاری سلطنت کو تباہ و برباد کر دے گا ۔
’’رامیسس دوم‘‘ نے یہ’’ آکاش وانی‘‘ ملتے ہی اپنی پارلیمنٹ کا فوری اجلاس بلایا کہ کوئی تدبیر نکالی جائے ،ماہرین سیاست و معیشت و معاشرت سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔مختلف مشورے ہوئے ۔کئی اجلاس ہوئے پھر ان ماہرین فہم و فراست نے ایک قانون بنایا جسے تاریخ انسانیت کا سب سے مکروہ قانون کہا جاتا ہے وہ قانون یہ تھاکہ اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے قتل کر دیے جائیں ۔اس قانون کے تمام مثبت اور منفی پہلو دیکھے گئے پوری جانچ پٹخ کی گئی اور ’’رامیسس دوم‘‘ کا ظلم اپنی انتہا کو پہنچ کر اس قانون کی صورت میں رائج کر دیا گیا ۔پھر سورج کی آنکھ نے سیکڑوں معصوموں کی گردنوں پر چھریاں پھرتے ہوئے دیکھیں ،اس سال پیدا ہونے والا ہر لال ماوں کے سامنے ذبح کر دیا گیا۔ہم اس حکمران کو فرعون کے نام سے جانتے ہیں ،جب بھی اس کا نام آتا ہے ہم اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔لیکن قانون اسے نہ بچا سکا وہ حکمران غرق ہو گیا ۔نہ اس کی سلطنت بھی باقی رہی ،نہ ہی وہ پارلیمنٹ رہی جس نے وہ قانون بنایا تھا نہ ہی وہ وزیر ومشیر باقی رہے ۔خود ’’رامیسس دوم‘‘کا جسم دنیا کے لیے عبرت کی جولانگاہ بنا ہوا ہے ۔لیکن اس کا بنایا ہوا کا قانون رہتی دنیا تک ہمیشہ ملعون و مطعون رہے گا۔
مورخ جب بھی انسانیت کے سب سے برے حکمرانوں کی فہرست بنائے گا تو ’’رامیسس دوم‘‘ کا نام فہرست میں سب سے اوپر ہو گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں