تازہ ترین
لوڈ ہو رہی ہے

پیر، 18 اپریل، 2022

بس کسی طرح چھکا لگ جائے

ایک مہربان کسی کام کاج کا مشورہ مانگتے ہوئے ہمیشہ اپنی ایک خواہش کا اظہار ضرور کرتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا کام بتایا
جائے جس سے ان کا کام شروع کرتے ہی کوئی بڑا چھکا لگ جائے۔ 

یہ خواہش لگ بھگ ہر اس پاکستانی کی ہے جو ہوتے تو آکاس بیل (طفیلی پودے یا Dodder) ہیں مگر خواہش تناور درخت بننے کی کرتے ہیں۔ جو پکی پکائی تیار کھانے کیلیئے پر تولے رکھتے ہیں، جو کم خرچ کم محنت سے لاکھوں کا نہیں کروڑوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ 

یہ خواہش رسہ گیری، راہزنی یا چوری چکاری کے ذریعے تو  پوری ہو سکتی ہے مگر کسی سیدھے اور ساد کام سے ممکن نہیں۔ ہاں کچھ تو شروع کیجیئے: پھر آپ کی محنت سے اس کے آگے بھی راستے نکلیں گے۔ بھیڑ چال نہ چلیئے۔ لاکھوں کام ہیں جنہیں ناک آڑے آ جانے کی وجہ سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں کرنے والے بھی اپنا آؤٹ کم اس لیئے نہیں بناتے تاکہ کوئی کمپی ٹیٹر اس میں نہ آ جائے۔ 

پاکستان میں کئی کاموں پر اجارہ دار لوگ جو اپنی روش بدلنے پر راضی نہیں، ان کے کاموں میں بہت پوٹینشل اور بڑی ڈیمانڈ ہے۔ ان کے روایتی ہتھکنڈوں کا توڑ ضروری ہے۔ پڑھے لکھے لوگ سامنے آئیں بھلے وہ کام نہ کریں اس کام کو کرنے کیلیئے منظم کمپنی بنائیں چھکے ہی چھکے ہونگے۔ 

جیسے: پلمبر آج بھی عدیم الاحساس ہے ہتھوڑا اٹھائے دیواریں ہلا دینے پر کمر بند۔ نئے اوزار لینے پر راضی نہیں ہے، وعدے کی پابندی پر آمادہ نہیں ہے۔ دو نمبری اور غلط بیانی سے پیسے بنانے پر بضد۔ 

الیکٹریشن آج بھی اٹکل پچو والے، کوئی پلاننگ اور کوئی آئیڈیا نہیں۔ جو بتا دو اس کا پچاس یا ساٹھ فیصد کر دیں گے باقی کا کہیں گے ہو ہی نہیں سکتا۔ 

دروازے بنانے والے بضد کہ انہی کے ڈیزائن لیئے جائیں ورنہ مال دو مہینے کے بعد ملے گا۔ دو مہینے والا سلسلہ دراز ہو کر چھ مہینے بن جاتا ہے۔ آرڈر لینا بہادری سمجھتے ہیں مگر مال بنا کر دینا مصیبت۔ تن آسانی والے کام مانگتے ہیں۔ 

ری سائیکلنگ کا کام کرنے والے کو کباڑیہ کہہ کر  ایسا کمتر بنایا گیا ہے کہ اس کی ماہانہ پچاس لاکھ کی آمدن، تین کروڑ کی کوٹھی اور نوے لاکھ کی گاڑی ماند پڑ گئی ہے۔ جو ازل سے اس کام میں ہیں وہی کر رہے ہیں نئے آنے سے کتراتے اور اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

سیلزمینی کا کام مشکل ہے، مارکیٹنگ ناممکن ہے، بنوانا بیچنا سخت کام ہے: ہاں بیٹھے بیٹھے دور کہیں فلک میں اٹکی نوٹوں  کی تھیلی کو تکتے رہنا اور اس کے گرنے کا انتظار کرنا آسان ہے۔ 

****
پس تحریر:

1: عزیز صاحب (فرضی نام) اکاؤنٹینسی سے فارغ ہو کر گزر بسر کیلیئے اپنی پیراں سالی میں بھی پھر سے ایک فلاحی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ بیٹے کو نامناسب کام کرتے شرم آتی ہے۔ بیٹی نےسکول چھوڑ کر (بیوٹی پارلر پر) نوکری کر لی ہے کہ جب بھائی نوکری لگے گا تو وہ کام چھوڑ دے گی۔ 

2: ابو ترکی (سعودی شہری) ایک مشن پر کراچی میں اپنے سفارتخانے میں کام کرتے رہے۔ دوران نوکری سکریپ کا کام کیا اور لاکھوں کماتے رہے۔ 

3: چینی لڑکی ملتان کے ایک ایک کاٹن جنرز کے پاس جا کر اس سے لِنٹ (کپاس کا کچرا) خرید کر ایکسپورٹ کرتی تھی۔ 

4: فیس بک پر ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ ساتھ کئی سند یافتہ عالم فاضل، مفتی کرام اور کئی باعزت گھرانوں کی بیبیاں آنلائن فروخت کا کام کر رہی ہیں۔ بلا مبالغہ انہوں نے اپنے گھر والوں کو معاشی طور پر بہت کنٹری بیوٹ کیا ہے۔ 

5: ملتان کی ایک پوش سوسائیٹی (جہاں اس وقت پانچ مرلے کا گھر بھی ڈیڑھ کروڑ کا ہے) کو گوگل میپ پر زووم کرکے دیکھتا ہوں تو کئی گھروں پر کھانا ہوم ڈیلیوری کرنے کا انتظام ہے لکھا نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سوسائیٹی میں فی گھر ماہانہ سروس چارجز  بھی پانچ ہزار سے اوپر ہیں۔ 

6: پیٹر کہتا تھا ہمارے بچے سٹرابیری چائلڈ ہیں: نہ دھوپ سہتے ہیں اور نہ سخت ہاتھ۔ ان کو اچھے ماحول میں آرام سے رکھا رہنے دو تو ان کی آب و تاب دیدنی ہوتی ہے ورنہ یہ زمانے کو فیس کرتے کرتے مرجھاتے ہی نہیں زخمی بلکہ گل سڑ جاتے ہیں۔ 

7: جدہ کورنیش پر افغانیوں کے بچوں کو پتنگیں یا پانی بیچتا ہوا دیکھ کر آپ کو افسوس تو ہوتا ہوگا۔ مگر ٹھہریئے اور یہ یاد رکھ لیجیئے کہ یہ بچے کسی اور کے نہیں قالین کے تاجروں اور بڑے ریسٹوران کے ان کے مالکان کے ہیں جنہوں نے انہیں فیلڈ ٹریننگ پر ادھر انٹرن شپ کیلیئے بھیجا ہوا ہے۔ 

8: اگر آپ کو چھکے (بڑا سکور) کے مطلب کا پتہ ہے تو آپ کو کرکٹ کی دوسری ٹرمز بولڈ، سٹمپڈ یا رن آؤٹ کا بھی پتہ ہوگا۔ پہلے بلا تھامنا تو سیکھیئے، کریز پر تشریف لائیے، کریز پر ٹھہرنا اور باؤلر یا باؤلز کو فیس کرنا سیکھیئے، کھیلنا اور سٹروک کھیلنا کچھ وقت کے ساتھ خود بخود آ جائیگا۔

محمد سلیم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں