جمعرات، 12 دسمبر، 2024

 اس معاملے میں سب سے پہلے اسلام دشمن عناصر ہیں جو ہمارے ارباب اقتدار کی صورت میں ہیں جن سے اسلام کے بارے میں کوئی اچھی امید قائم رکھنا ایں خیال است و محال است و جنون والی بات ہے.

جن کا وطیرہ ازل سے یہی رہا ہے کہ (القرآن)

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان بھی لائے ہوئے ہیں اور جب اپنی ذاتی محفلوں میں اپنے بڑے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایک ہیں. باقی ان (مسلمانوں) سے ہم مذاق کرتے ہیں.


دوسرے وہ مفاد پرست عناصر ہیں جو ملکی اسلامی اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں. یا پھر جانے انجانے میں پہلے عناصر کے آلہ کار بن جاتے ہیں.  

تیسرا اور کوئی عنصر نہی ہے. 


ہمارے حاضر اور غائب سروس ارباب اقتدار کی منافقت اور اسلام بیزاری کے بارے میں کون ہوگا جس کو علم نہی. لہذا اس سب واقعے میں اگر یہ دیکھ لیا جائے کہ منافقین کی راہ پر اور ان کے پیج پر کون ہے اور کون کون ان کی زبان بول رہا ہے. تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے. 


 اور باقی ممکنہ مداخلتیں تو جب ہوں گی سو ہوں گی مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت کرنا تو اولین مداخلت ہے.اسی سے باقی مداخلتوں کی راہ ہموار ہوگی. یہ کامیاب ہو گئی تو اگلے امور تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں. اور نصاب میں تبدیلی اسکا بنیادی مقصد ہے. 


لہذا اس تمام معاملے میں امام سیاست قائد ملت مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ اور ان کے رفقاء کے تحفظات,  ممکنہ شکوک و شبہات, اندیشے, اعتراضات بالکل بجا اور حق بجانب ہیں.

اور لاشعوری نہی بلکہ شعوری طور پر,  آنکھیں بند کر کے نہی بلکہ حقیقت کو پرکھ کر, قومی لسانی شخصی تعلقات پر نہی بلکہ نظریاتی طور پر, مفادات کی بنیاد پر نہی بلکہ حق نا حق کو دیکھ بھال کر جو کوئی بھی آئے گا وہ جمعیت اور وفاق کا موقف ہی اپنائے گا.


باقی اگر کوئی دوسری جانب دیکھنا چاہے تو دیکھے جہاں سوائے اسلام بیزار حکمراں اور چند سرکاری اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ چہروں کے اور کچھ نہی. 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں