روزہ کے ضروری اور اہم مسائل
*تحریر و ترتیب* ۔۔
عبدالصمد ساجد،
مدرس و معین دارالافتاء
جامعہ حقانیہ،ساہیوال،سرگودھا
عبدالصمد ساجد،
مدرس و معین دارالافتاء
جامعہ حقانیہ،ساہیوال،سرگودھا
ذیل میں روزہ کے چند ضروری مسائل و احکام ذکر کیے جاتے ہیں،جن میں سے اکثر مفتی ٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ کے رسالہ ’’ احکام ِ رمضان المبارک و مسائل زکوٰۃ‘‘ اور مفتی سید عبدالشکور ترمذی رحمہ اللہ کے رسالہ ''احکام رمضان المبارک'' سے نقل کئے گئے ہیں،اگر کوئی مسئلہ کسی اور کتاب سے لیا گیا ہے تو اس کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔
*مسئلہ* ۔رمضان کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے،جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے مسلمان نہیں رہتا،اور جو اس فرض کو ادا نہ کرے سخت گناہ گار اور فاسق ہے۔
*مسئلہ* ۔ رمضان شریف کے روزے ہرعاقل و بالغ پر فرض ہیں،جب تک کوئی شرعی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں، [ بہشتی زیور]
*نوٹ* ۔ آج کل رمضان گرمی میں آرہا ہے ،تو بعض والدین اپنی بالغ اولاد کو بھی روزے نہیں رکھنے دیتے،یہ بالکل ناجائز ہے،جب تک کوئی واقعی شرعی عذر نہ ہو،محض گرمی کوئی عذر نہیں،والدین کے روکنے کی وجہ سے اگر اولاد نے فرض روزے چھوڑ دیے تو اس کا گناہ والدین کو بھی ہوگا،اولاد کے لیے اس مسئلہ میں والدین کی بات ماننا جائز نہیں ہے،بے ادبی کیے بغیر والدین کی خدمت میں شریعت کا مسئلہ رکھیں اور فرض کے تارک ہرگز نہ بنیں،نیز والدین کو بھی چاہیے کہ بلوغ سے پہلے ہی اولاد کو روزہ وغیرہ عبادات کا عادی بنائیں،
*مسئلہ* ۔ روزہ کے لیے نیت شرط ہے،اگر روزہ کا ارادہ نہ کیااور تمام دن کچھ کھایا پیانہیں تو روزہ نہ ہوگا،
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ،زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں،لیکن کہہ لے تو اچھا ہے۔
*مسئلہ* ۔ رمضان کے روزے کی نیت رات سے کرلینا بہتر ہے اور اگر رات کو نہ کی ہو تو دن کو بھی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک کرسکتا ہے،بشرطیکہ کچھ کھایا پیا نہ ہو۔
*مسئلہ* ۔ رمضان شریف کے روزے ہرعاقل و بالغ پر فرض ہیں،جب تک کوئی شرعی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں، [ بہشتی زیور]
*نوٹ* ۔ آج کل رمضان گرمی میں آرہا ہے ،تو بعض والدین اپنی بالغ اولاد کو بھی روزے نہیں رکھنے دیتے،یہ بالکل ناجائز ہے،جب تک کوئی واقعی شرعی عذر نہ ہو،محض گرمی کوئی عذر نہیں،والدین کے روکنے کی وجہ سے اگر اولاد نے فرض روزے چھوڑ دیے تو اس کا گناہ والدین کو بھی ہوگا،اولاد کے لیے اس مسئلہ میں والدین کی بات ماننا جائز نہیں ہے،بے ادبی کیے بغیر والدین کی خدمت میں شریعت کا مسئلہ رکھیں اور فرض کے تارک ہرگز نہ بنیں،نیز والدین کو بھی چاہیے کہ بلوغ سے پہلے ہی اولاد کو روزہ وغیرہ عبادات کا عادی بنائیں،
*مسئلہ* ۔ روزہ کے لیے نیت شرط ہے،اگر روزہ کا ارادہ نہ کیااور تمام دن کچھ کھایا پیانہیں تو روزہ نہ ہوگا،
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ،زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں،لیکن کہہ لے تو اچھا ہے۔
*مسئلہ* ۔ رمضان کے روزے کی نیت رات سے کرلینا بہتر ہے اور اگر رات کو نہ کی ہو تو دن کو بھی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک کرسکتا ہے،بشرطیکہ کچھ کھایا پیا نہ ہو۔
*جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے*
(۱) کان اور ناک میں دوا ڈالنا۔
اب بہت سے حضرات کی
تحقیق یہ ھے کہ کان کے اندر پانی‘ تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، الا یہ کہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہو اہو‘ اور وہ پانی ‘ تیل یا دوا وغیرہ اس کے حلق تک پہنچ جائے۔
البتہ دن میں دوا ڈالنے کے بجائے افطار کے بعد تیل یا دوا ڈالے تو اس کے لئے ایساکرنا بہتر اور شبہ سے بعید تر ہوگا۔
(ماخذ: ماہنامہ البلاغ، کراچی۔ بابت رمضان المبارک۔ 1422 ھ )
(۲) جان بوجھ کر منہ بھر کر قے کرنا۔
(۳) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا ،جبکہ یاد ہو کہ روزہ ہے۔
(۴) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجانا۔
(۵) کوئی ایسی چیز نگل لینا جو عام طور پر کھائی نہیں جاتی،جیسے لکڑی، لوہا،کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ۔
(۶) نسوار ،سگریٹ اور حقہ وغیرہ پینا۔
(۷) بھول کر کھا پی لیا،اور یہ سمجھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہے ،پھر جان بوجھ کر کھا پی لیا۔
(۸) سحری کا وقت ختم ہوچکا تھا لیکن یہ خیال کیا کہ وقت ابھی باقی ہے، اور کھا پی لیا۔
(۹) دن باقی تھامگر غلطی سے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے،روزہ افطار کرلیا۔
*نوٹ* ۔ اوپر ذکر کی گئی تمام باتوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،مگر صرف قضاء واجب ہوتی ہے،کفارہ لازم نہیں ہوتا،
(۱۰) جان بوجھ کر بیوی سے صحبت کرنے اور جان بوجھ کر کھانے پینے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں،
*کفارہ یہ ہے* کہ لگاتار بغیر ناغے کے ساٹھ روزے رکھے،اگر ناغہ کردیا تو نئے سرے سے لگارتار ساٹھ روزے رکھے،اور اگر روزوں کی طاقت نہ ہو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے۔
(۱) کان اور ناک میں دوا ڈالنا۔
اب بہت سے حضرات کی
تحقیق یہ ھے کہ کان کے اندر پانی‘ تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، الا یہ کہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہو اہو‘ اور وہ پانی ‘ تیل یا دوا وغیرہ اس کے حلق تک پہنچ جائے۔
البتہ دن میں دوا ڈالنے کے بجائے افطار کے بعد تیل یا دوا ڈالے تو اس کے لئے ایساکرنا بہتر اور شبہ سے بعید تر ہوگا۔
(ماخذ: ماہنامہ البلاغ، کراچی۔ بابت رمضان المبارک۔ 1422 ھ )
(۲) جان بوجھ کر منہ بھر کر قے کرنا۔
(۳) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا ،جبکہ یاد ہو کہ روزہ ہے۔
(۴) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجانا۔
(۵) کوئی ایسی چیز نگل لینا جو عام طور پر کھائی نہیں جاتی،جیسے لکڑی، لوہا،کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ۔
(۶) نسوار ،سگریٹ اور حقہ وغیرہ پینا۔
(۷) بھول کر کھا پی لیا،اور یہ سمجھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہے ،پھر جان بوجھ کر کھا پی لیا۔
(۸) سحری کا وقت ختم ہوچکا تھا لیکن یہ خیال کیا کہ وقت ابھی باقی ہے، اور کھا پی لیا۔
(۹) دن باقی تھامگر غلطی سے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے،روزہ افطار کرلیا۔
*نوٹ* ۔ اوپر ذکر کی گئی تمام باتوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،مگر صرف قضاء واجب ہوتی ہے،کفارہ لازم نہیں ہوتا،
(۱۰) جان بوجھ کر بیوی سے صحبت کرنے اور جان بوجھ کر کھانے پینے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں،
*کفارہ یہ ہے* کہ لگاتار بغیر ناغے کے ساٹھ روزے رکھے،اگر ناغہ کردیا تو نئے سرے سے لگارتار ساٹھ روزے رکھے،اور اگر روزوں کی طاقت نہ ہو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے۔
*وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں مگر مکروہ ہوجاتا ہے*
(۱) بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا ،ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلہ سے دانت صاف کرنا بھی روزہ میں مکروہ ہے۔
(۲) تمام دن حالت ِ جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا،
(۳) فصد کرانا،کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا۔
(۴) غیبت کرنا( یہ ہرحال میں حرام ہے ،روزہ میں اس کا گناہ اور بڑھ جاتا ہے)
(۵)لڑنا،جھگڑنا،کسی بھی جان دار یا بے جان چیز کو گالی دینا۔
(۲) تمام دن حالت ِ جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا،
(۳) فصد کرانا،کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا۔
(۴) غیبت کرنا( یہ ہرحال میں حرام ہے ،روزہ میں اس کا گناہ اور بڑھ جاتا ہے)
(۵)لڑنا،جھگڑنا،کسی بھی جان دار یا بے جان چیز کو گالی دینا۔
*وہ چیزیں جن سے روزہ نہ ٹوٹتا ہے نہ مکروہ ہوتا ہے*
(۱) مسواک کرنا
(۲) سر ،داڑھی یا مونچھوں پر تیل لگانا۔
(۳) آنکھوں میں دوائی یا سرمہ ڈالنا۔
(۴) خوشبو سونگھنا۔
(۵) گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا۔
(۶) کسی بھی قسم کا انجکشن لگوانا۔
(۷) بھول کرکھانا پینا یا بھول کر بیوی سے صحبت کرنا۔
(۸) حلق میں بلا اختیار دھواں،گردو و ٖغبار یا مکھی وغیرہ کا چلا جانا۔
(۹) کان میں پانی ڈالنا یا بلاقصد چلا جانا۔
(۱) مسواک کرنا
(۲) سر ،داڑھی یا مونچھوں پر تیل لگانا۔
(۳) آنکھوں میں دوائی یا سرمہ ڈالنا۔
(۴) خوشبو سونگھنا۔
(۵) گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا۔
(۶) کسی بھی قسم کا انجکشن لگوانا۔
(۷) بھول کرکھانا پینا یا بھول کر بیوی سے صحبت کرنا۔
(۸) حلق میں بلا اختیار دھواں،گردو و ٖغبار یا مکھی وغیرہ کا چلا جانا۔
(۹) کان میں پانی ڈالنا یا بلاقصد چلا جانا۔
(۱۰) تھوڑی یا زیادہ خود بخود قے آجانا۔
(۱۱) سوتے ہوئے احتلام ( غسل کی حاجت) ہوجانا۔
(۱۲) دانتوں میں سے خون نکلے مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں خلل نہیں آتا۔
(۱۳) اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی،اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہیں کیا،اسی حالت میں روزہ کی نیت کرلی،تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔
(۱۴) سخت ضرورت کے وقت خون چڑھوانا،
[ ماہ ِ رمضان کے فضائل و مسائل،
از مفتی عبدالرؤف سکھروی مدظلھم]
(۱۵) نکسیر پھوٹنا، [ ایضا ً]
(۱۶) طاقت کا انجکشن لگوانا [ ایضا ً]
(۱۷) رومال بھگو کر سر پر ڈالنا اور کثرت سے نہانا، [ ایضا ً]
(۱۸) بچے کو دودھ پلانا [ ایضا ً]
(۱۹) اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو تو بیوی سے بوس و کنار کرنا [ ایضا ً]
(۲۰) اپنا تھوک جو منہ میں ہو،نگل لینا،البتہ اسے منہ میں جمع کرکے اسے نگلنا نہ چاہیے۔
[ ایضا ً]
(۱۱) سوتے ہوئے احتلام ( غسل کی حاجت) ہوجانا۔
(۱۲) دانتوں میں سے خون نکلے مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں خلل نہیں آتا۔
(۱۳) اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی،اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہیں کیا،اسی حالت میں روزہ کی نیت کرلی،تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔
(۱۴) سخت ضرورت کے وقت خون چڑھوانا،
[ ماہ ِ رمضان کے فضائل و مسائل،
از مفتی عبدالرؤف سکھروی مدظلھم]
(۱۵) نکسیر پھوٹنا، [ ایضا ً]
(۱۶) طاقت کا انجکشن لگوانا [ ایضا ً]
(۱۷) رومال بھگو کر سر پر ڈالنا اور کثرت سے نہانا، [ ایضا ً]
(۱۸) بچے کو دودھ پلانا [ ایضا ً]
(۱۹) اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو تو بیوی سے بوس و کنار کرنا [ ایضا ً]
(۲۰) اپنا تھوک جو منہ میں ہو،نگل لینا،البتہ اسے منہ میں جمع کرکے اسے نگلنا نہ چاہیے۔
[ ایضا ً]
*وہ عذر جن کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے*
(۱) بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہو،یا مرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہو،
(۲) عورت حمل سے ہو اور روزہ سے بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو،
(۳) عورت اپنے یا کسی کے بچہ کو دودھ پلاتی ہو، اور روزہ رکھنے سے بچے کو دودھ نہ ملے،تکلیف پہنچتی ہو
(۴) مسافر ِ شرعی ( جو کم از کم اڑتالیس میل کے ارادہ سے گھر سے نکلا ہو) اس کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے،پھر اگر کچھ تکلیف اور دقّت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ سفر میں بھی روزہ رکھے،لیکن خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو اس سے تکلیف ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
(۵) بحالت ِ روزہ سفر شروع کیاتو اس روزہ کا پورا کرنا ضروری ہے،اور اگر سفر میں بغیر روزہ کے تھا اور کچھ کھا پی چکا،اس کے بعد وطن واپس آیا،تو باقی دن روزہ داروں کی طرح گزارے،کھانے پینے سے احتراز کرے،اور اگر ابھی کچھ کھایا پیا نہیں تھاکہ وطن میں ایسے وقت واپس آگیا ،جب کہ روزہ کی نیت ہوسکتی ہو یعنی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک،تو اس پر لازم ہے کہ روزہ کی نیت کرلے،
(۶) بیماری یا بھوک پیاس کا اتنا غلبہ ہوجائے کہ کسی مسلمان دین دار ماہر طبیب یا ڈاکٹر کے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہو،تو روزہ توڑ دینا جائز بلکہ واجب ہے،
(۷) عورت کے لیے ماہواری ایام میں اور بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے یعنی نفاس،اس دوران روزہ رکھنا جائز نہیں،
*مسئلہ* ۔ بیمار ،مسافر،حیض و نفاس والی عورت جن کے لیے رمضان میںروزہ نہ رکھنا اور کھانا پینا جائز ہے ،ان کو بھی لازم ہے کہ رمضان کا احترام کریں،سب کے سامنے کھاتے پیتے نہ پھریں،
*مسئلہ* ۔ اگر عورت کو روزہ کی حالت میں حیض آجائے تووہ بقیہ دن کھا پی سکتی ہے،روزہ دار کی طرح رہنا ضروری نہیں، اور اگر پہلے سے حیض یا نفاس میں تھی اور رمضان کے دن میں پاک ہوگئی،تو بقیہ دن روزہ دار کی مانند رہے،اس کے لیے کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے،اور بعد میں اس روزے کی قضاء بھی کرے۔ [ فتاوٰی بینات،جلد۳،صفحہ ۸۵،]
*اہم تنبیہ* ۔
جن اعذار کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی شرعا ً اجازت ہے،امتحان ان میں سے نہیں ہے،ساری زندگی کے روزے بھی رمضان کے ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتے۔
[ خیر الفتاویٰ،جلد۴،صفحہ ۴۴ ]
امسال چونکہ بورڈ کی بعض کلاسوں کے امتحانات رمضان میں آرہے ہیں،لہذا احتیاط کی ضرورت ہے،نیز سرکاری بورڈ کو بھی چاہیے کہ لوگوں کے لیے دینی احکام و فرائض کی ادائیگی آسان بنائیں ،مشکلات پیدا نہ کریں۔
*روزہ کی قضاء* ۔ مذکورہ اعذار میں سے کسی عذر کی وجہ سے اگر روزہ نہ رکھ سکا، تو بعد میں جب عذر جاتا رہا،تو جلد روزہ قضاء کرلینا چاہیے،زندگی اور طاقت کا بھروسہ نہیں،قضاء روزوں میں اختیار ہے کہ لگاتار رکھے یا ایک ایک دو دو کرکے رکھے۔
*فدیہ*
جو شخص اتنا بوڑھا ہوجائے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے،یااتنا بیمار ہے کہ اب ٹھیک ہونے کی امید نہیں،نہ روزہ رکھنے کی طاقت ہے،تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ ٔ فطر کے برابر غلہ یا اس کی رقم دے دے یا ہر روزہ کے بدلیاایک مسکین کو صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلا ئے،شریعت میں اس کو فدیہ کہتے ہیں،اور یہ فدیہ اگر تھوڑا تھوڑا کرکے کئی مسکینوں میں تقسیم کردے تو بھی صحیح ہے،نیز پھر اگر کبھی طاقت آگئی یا بیماری سے تندرست ہوگیا توسب روزے قضا رکھنے پڑیں گے،اور جو فدیہ دیا تھا اس کا ثواب الگ ملے گا۔ [ تسہیل بہشتی زیور]
*سحری* ۔ روزہ دار کو رات کے آخری حصہ میں صبح صادق سے پہلے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعث برکت و ثواب ہے،نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی،لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے،
*مسئلہ* ۔ اگر مؤذن سے صبح صادق سے پہلے اذان دے دی،تو سحری کھانے کی ممانعت نہیں،جب تک صبح صادق نہ ہوجائے،
*افطاری* ۔ سورج غروب ہوجانے کا یقین ہوجانے کے بعد افطار میں دیر کرنا مکروہ ہے، تین منٹ کی احتیاط بہرحال کرنی چاہیے ،اس میں کچھ حرج نہیں۔
*مسئلہ* ۔ کھجور سے افطار کرنا افضل ہے،اور کسی دوسری چیز سے افطار کریں تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں،
*افطار کے وقت یہ دعائیں مسنون ہیں* ۔
(۱) ’’ *اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ * ُ‘‘
[ سنن ابی داؤد، رقم:2358]
(۲) ’’ *اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي* ْْ‘‘
[ سنن ابن ماجہ، رقم: 1753]
افطاری کے بعد یہ دعا مسنون ہے۔
’’ *ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ* ‘‘
[سنن ابی داؤد:رقم 2357]
اگر کسی کے ہاں افطار کرے تو افطار کرانے والے کو یہ دعا دے۔
’’ *أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلَائِكَةُ*
ُ‘‘
[ابو داؤد، رقم:3854]
*تراویح* ۔
رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بیس رکعت نماز ِ تراویح سنت ِ مؤکّدہ ہے۔
*مسئلہ* ۔ تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے،اگر محلے کی مسجد میں تراویح کی جماعت ہوتی ہو،اور کوئی شخص علیحدہ اپنے گھر میں اپنی تراویح پڑھ لے ،تو سنت ادا ہوگئی،اگرچہ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہا،اور اگر محلے میں بھی جماعت نہ ہوئی،تو سب کے سب سنت چھوڑنے پر گناہ گار ہوں گے۔
*مسئلہ* ۔ تراویح میں پورا قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے، کسی جگہ حافظ قرآن سنانے والا نہ ملے ،یا ملے مگر سنانے پر اجرت و معاوضہ طلب کرے،تو چھوٹی سورتوں سے نماز ِ تراویح ادا کریں ،اجرت دے کرقرآن نہ سنیں ،کیونکہ قرآن سنانے یا سننے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔
*مسئلہ* ۔ جمہور علماء کا فتوی یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
*اعتکاف* ۔
*مسئلہ* ۔ اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے،اور ایسی حاجات ِ ضروریہ جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں،جیسے پیشاب،پاخانہ،غسل ِواجب اور وضو کی ضرورت،ان کے سوا مسجد سے باہر نہ جائے۔
*مسئلہ* ۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے،یعنی اگر بڑے شہر کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے ،تو سب سنت چھوڑنے پر گناہ گار ہوں گے،اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
*مسئلہ* ۔ اعتکاف میں بالکل خاموش رہنا ضروری نہیں،بلکہ مکروہ ہے،اور نہ ہی پردے لٹکانا اور جگہ خاص کرنا ضروری ہے،بعض علاقوں میں معتکف عورتوں کی طرح نقاب میں رہتے ہیں ،شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں،ہاں البتہ اعتکاف کے دوران فضولیات سے بچنا چاہیے،نیک اعمال میں مشغول رہنا چاہیے اور اس کے مناسب انتظام میں میں بھی کچھ حرج نہیں۔
*مسئلہ* ۔ غسل ِ جمعہ یا محض گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا اعتکاف ِ مسنون میں جائز نہیں، مسجد کے ملحق غسل خانے جو مسجد میں نہیں ہوتے،لیکن مسجد کی ملکیت ہوتے ہیں،ان میں بھی غسل ِ جمعہ یا ٹھنڈک کے لیے غسل کی خاطر جانا،اعتکاف ِ مسنون میں جائز نہیں،جائز طریقے پر غسل ِ جمعہ یا ٹھنڈک کے غسل کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ٹب رکھ کر اس میں غسل کریں یا مسجد کے کنارے پر اس طرح بیٹھیں کہ مستعمل پانی مسجد میں نہ گرے۔ [ فتاوٰی عثمانی،جلد ۲،صفحہ ۱۹۶]
*مسئلہ* ۔ اگر بیماری وغیرہ کسی وجہ سے اعتکافِ مسنون توڑ دیا تو قضائً ایک دن کا اعتکاف لازم ہوگا،جس کے لیے رمضان شرط نہیں ،لیکن روزہ شرط ہے۔ [ ایضا ً ]
*شب ِ قدر* ۔
*حضرت مفتی اعظم پاکستان رحمہ اللہ رقم طراز ہیں* ،
’’ چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں،اس لیے اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرما دی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے،لیکن اس کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں،اور ثواب بے حساب پائیں،رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے،یعنی اکیسویں،تئیسویں،پچیسویں،ستائیسویں، انتیسویں شب،اور ستائیسویں شب میں سب سے زیادہ احتمال ہے،ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ و استغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے،اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہو،تو جس قدر ہوسکے جاگے،اور نفل نماز یا تلاوت ِ قرآن یا ذکر یا تسبیح میں مشغول رہے،اورکچھ نہ ہوسکے ،تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے ،حدیث میں آیا ہے،کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے،ان راتوں کو صرف جلسوں ،تقریروں میں صَرف کرکے سوجانا بڑی محرومی ہے،تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں،عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔
البتہ جو لوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں ،وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں،پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو درست ہے۔‘‘
[ جواہر الفقہ،جلدسوم،]
شب ِ قدر سے متعلق حضرت رحمہ اللہ کی یہ تحریر بہت مختصر لیکن انتہائی جامع ہے،جو آپ کی خدا فقہی و علمی صلاحیت و بصیرت کی ایک ادنی جھلک ہے۔
شب ِ قدر میں پڑھنے کے لیے حضور نبی ٔ کریم ﷺ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو یہ دعا تعلیم فرمائی،
’’ *اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي* ‘‘
[ جامع ترمذی، رقم:3513]
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی پوری پوری برکتیں عطاء فرمائیں اور اس ماہ ِ مبارک کو ہماری بخشش و نجات کا ذریعہ بنائے۔
اللّٰھم صلّ و سلّم و بارک علی سیدنا و مولانا محمد و علیٰ اٰلہ و صحبه اجمعين
(۱) بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہو،یا مرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہو،
(۲) عورت حمل سے ہو اور روزہ سے بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو،
(۳) عورت اپنے یا کسی کے بچہ کو دودھ پلاتی ہو، اور روزہ رکھنے سے بچے کو دودھ نہ ملے،تکلیف پہنچتی ہو
(۴) مسافر ِ شرعی ( جو کم از کم اڑتالیس میل کے ارادہ سے گھر سے نکلا ہو) اس کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے،پھر اگر کچھ تکلیف اور دقّت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ سفر میں بھی روزہ رکھے،لیکن خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو اس سے تکلیف ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
(۵) بحالت ِ روزہ سفر شروع کیاتو اس روزہ کا پورا کرنا ضروری ہے،اور اگر سفر میں بغیر روزہ کے تھا اور کچھ کھا پی چکا،اس کے بعد وطن واپس آیا،تو باقی دن روزہ داروں کی طرح گزارے،کھانے پینے سے احتراز کرے،اور اگر ابھی کچھ کھایا پیا نہیں تھاکہ وطن میں ایسے وقت واپس آگیا ،جب کہ روزہ کی نیت ہوسکتی ہو یعنی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک،تو اس پر لازم ہے کہ روزہ کی نیت کرلے،
(۶) بیماری یا بھوک پیاس کا اتنا غلبہ ہوجائے کہ کسی مسلمان دین دار ماہر طبیب یا ڈاکٹر کے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہو،تو روزہ توڑ دینا جائز بلکہ واجب ہے،
(۷) عورت کے لیے ماہواری ایام میں اور بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے یعنی نفاس،اس دوران روزہ رکھنا جائز نہیں،
*مسئلہ* ۔ بیمار ،مسافر،حیض و نفاس والی عورت جن کے لیے رمضان میںروزہ نہ رکھنا اور کھانا پینا جائز ہے ،ان کو بھی لازم ہے کہ رمضان کا احترام کریں،سب کے سامنے کھاتے پیتے نہ پھریں،
*مسئلہ* ۔ اگر عورت کو روزہ کی حالت میں حیض آجائے تووہ بقیہ دن کھا پی سکتی ہے،روزہ دار کی طرح رہنا ضروری نہیں، اور اگر پہلے سے حیض یا نفاس میں تھی اور رمضان کے دن میں پاک ہوگئی،تو بقیہ دن روزہ دار کی مانند رہے،اس کے لیے کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے،اور بعد میں اس روزے کی قضاء بھی کرے۔ [ فتاوٰی بینات،جلد۳،صفحہ ۸۵،]
*اہم تنبیہ* ۔
جن اعذار کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی شرعا ً اجازت ہے،امتحان ان میں سے نہیں ہے،ساری زندگی کے روزے بھی رمضان کے ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتے۔
[ خیر الفتاویٰ،جلد۴،صفحہ ۴۴ ]
امسال چونکہ بورڈ کی بعض کلاسوں کے امتحانات رمضان میں آرہے ہیں،لہذا احتیاط کی ضرورت ہے،نیز سرکاری بورڈ کو بھی چاہیے کہ لوگوں کے لیے دینی احکام و فرائض کی ادائیگی آسان بنائیں ،مشکلات پیدا نہ کریں۔
*روزہ کی قضاء* ۔ مذکورہ اعذار میں سے کسی عذر کی وجہ سے اگر روزہ نہ رکھ سکا، تو بعد میں جب عذر جاتا رہا،تو جلد روزہ قضاء کرلینا چاہیے،زندگی اور طاقت کا بھروسہ نہیں،قضاء روزوں میں اختیار ہے کہ لگاتار رکھے یا ایک ایک دو دو کرکے رکھے۔
*فدیہ*
جو شخص اتنا بوڑھا ہوجائے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے،یااتنا بیمار ہے کہ اب ٹھیک ہونے کی امید نہیں،نہ روزہ رکھنے کی طاقت ہے،تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ ٔ فطر کے برابر غلہ یا اس کی رقم دے دے یا ہر روزہ کے بدلیاایک مسکین کو صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلا ئے،شریعت میں اس کو فدیہ کہتے ہیں،اور یہ فدیہ اگر تھوڑا تھوڑا کرکے کئی مسکینوں میں تقسیم کردے تو بھی صحیح ہے،نیز پھر اگر کبھی طاقت آگئی یا بیماری سے تندرست ہوگیا توسب روزے قضا رکھنے پڑیں گے،اور جو فدیہ دیا تھا اس کا ثواب الگ ملے گا۔ [ تسہیل بہشتی زیور]
*سحری* ۔ روزہ دار کو رات کے آخری حصہ میں صبح صادق سے پہلے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعث برکت و ثواب ہے،نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی،لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے،
*مسئلہ* ۔ اگر مؤذن سے صبح صادق سے پہلے اذان دے دی،تو سحری کھانے کی ممانعت نہیں،جب تک صبح صادق نہ ہوجائے،
*افطاری* ۔ سورج غروب ہوجانے کا یقین ہوجانے کے بعد افطار میں دیر کرنا مکروہ ہے، تین منٹ کی احتیاط بہرحال کرنی چاہیے ،اس میں کچھ حرج نہیں۔
*مسئلہ* ۔ کھجور سے افطار کرنا افضل ہے،اور کسی دوسری چیز سے افطار کریں تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں،
*افطار کے وقت یہ دعائیں مسنون ہیں* ۔
(۱) ’’ *اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ * ُ‘‘
[ سنن ابی داؤد، رقم:2358]
(۲) ’’ *اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي* ْْ‘‘
[ سنن ابن ماجہ، رقم: 1753]
افطاری کے بعد یہ دعا مسنون ہے۔
’’ *ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ* ‘‘
[سنن ابی داؤد:رقم 2357]
اگر کسی کے ہاں افطار کرے تو افطار کرانے والے کو یہ دعا دے۔
’’ *أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلَائِكَةُ*
ُ‘‘
[ابو داؤد، رقم:3854]
*تراویح* ۔
رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بیس رکعت نماز ِ تراویح سنت ِ مؤکّدہ ہے۔
*مسئلہ* ۔ تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے،اگر محلے کی مسجد میں تراویح کی جماعت ہوتی ہو،اور کوئی شخص علیحدہ اپنے گھر میں اپنی تراویح پڑھ لے ،تو سنت ادا ہوگئی،اگرچہ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہا،اور اگر محلے میں بھی جماعت نہ ہوئی،تو سب کے سب سنت چھوڑنے پر گناہ گار ہوں گے۔
*مسئلہ* ۔ تراویح میں پورا قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے، کسی جگہ حافظ قرآن سنانے والا نہ ملے ،یا ملے مگر سنانے پر اجرت و معاوضہ طلب کرے،تو چھوٹی سورتوں سے نماز ِ تراویح ادا کریں ،اجرت دے کرقرآن نہ سنیں ،کیونکہ قرآن سنانے یا سننے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔
*مسئلہ* ۔ جمہور علماء کا فتوی یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
*اعتکاف* ۔
*مسئلہ* ۔ اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے،اور ایسی حاجات ِ ضروریہ جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں،جیسے پیشاب،پاخانہ،غسل ِواجب اور وضو کی ضرورت،ان کے سوا مسجد سے باہر نہ جائے۔
*مسئلہ* ۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے،یعنی اگر بڑے شہر کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے ،تو سب سنت چھوڑنے پر گناہ گار ہوں گے،اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
*مسئلہ* ۔ اعتکاف میں بالکل خاموش رہنا ضروری نہیں،بلکہ مکروہ ہے،اور نہ ہی پردے لٹکانا اور جگہ خاص کرنا ضروری ہے،بعض علاقوں میں معتکف عورتوں کی طرح نقاب میں رہتے ہیں ،شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں،ہاں البتہ اعتکاف کے دوران فضولیات سے بچنا چاہیے،نیک اعمال میں مشغول رہنا چاہیے اور اس کے مناسب انتظام میں میں بھی کچھ حرج نہیں۔
*مسئلہ* ۔ غسل ِ جمعہ یا محض گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا اعتکاف ِ مسنون میں جائز نہیں، مسجد کے ملحق غسل خانے جو مسجد میں نہیں ہوتے،لیکن مسجد کی ملکیت ہوتے ہیں،ان میں بھی غسل ِ جمعہ یا ٹھنڈک کے لیے غسل کی خاطر جانا،اعتکاف ِ مسنون میں جائز نہیں،جائز طریقے پر غسل ِ جمعہ یا ٹھنڈک کے غسل کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ٹب رکھ کر اس میں غسل کریں یا مسجد کے کنارے پر اس طرح بیٹھیں کہ مستعمل پانی مسجد میں نہ گرے۔ [ فتاوٰی عثمانی،جلد ۲،صفحہ ۱۹۶]
*مسئلہ* ۔ اگر بیماری وغیرہ کسی وجہ سے اعتکافِ مسنون توڑ دیا تو قضائً ایک دن کا اعتکاف لازم ہوگا،جس کے لیے رمضان شرط نہیں ،لیکن روزہ شرط ہے۔ [ ایضا ً ]
*شب ِ قدر* ۔
*حضرت مفتی اعظم پاکستان رحمہ اللہ رقم طراز ہیں* ،
’’ چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں،اس لیے اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرما دی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے،لیکن اس کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں،اور ثواب بے حساب پائیں،رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے،یعنی اکیسویں،تئیسویں،پچیسویں،ستائیسویں، انتیسویں شب،اور ستائیسویں شب میں سب سے زیادہ احتمال ہے،ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ و استغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے،اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہو،تو جس قدر ہوسکے جاگے،اور نفل نماز یا تلاوت ِ قرآن یا ذکر یا تسبیح میں مشغول رہے،اورکچھ نہ ہوسکے ،تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے ،حدیث میں آیا ہے،کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے،ان راتوں کو صرف جلسوں ،تقریروں میں صَرف کرکے سوجانا بڑی محرومی ہے،تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں،عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔
البتہ جو لوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں ،وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں،پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو درست ہے۔‘‘
[ جواہر الفقہ،جلدسوم،]
شب ِ قدر سے متعلق حضرت رحمہ اللہ کی یہ تحریر بہت مختصر لیکن انتہائی جامع ہے،جو آپ کی خدا فقہی و علمی صلاحیت و بصیرت کی ایک ادنی جھلک ہے۔
شب ِ قدر میں پڑھنے کے لیے حضور نبی ٔ کریم ﷺ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو یہ دعا تعلیم فرمائی،
’’ *اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي* ‘‘
[ جامع ترمذی، رقم:3513]
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی پوری پوری برکتیں عطاء فرمائیں اور اس ماہ ِ مبارک کو ہماری بخشش و نجات کا ذریعہ بنائے۔
اللّٰھم صلّ و سلّم و بارک علی سیدنا و مولانا محمد و علیٰ اٰلہ و صحبه اجمعين
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں