تازہ ترین
لوڈ ہو رہی ہے

منگل، 1 مئی، 2018

شعبان وشبِ برأت کی حقیقت ،فضائل،احکام اوربدعات ورسومات

شعبان کامہینہ چل رہاہےاوریہ اسلامی کیلنڈرکے اعتبارسےآٹھواں مہینہ ہے،شعبان ’’شَعٗب یاشَعُّب‘‘سے ماخوذہے،جس کےکئی معانی میں سے ایک معنی پھیلنے کی بھی آتےہیں،اورچونکہ اس مہینہ میں رمضان المبارک کیلئےخوب بھلائی اورنیکیاں پھیلتی ہیں اس لئے اس مہینہ کو شعبان کہتےہیں۔

اسلامی نقطۂ نظرسےشعبان رمضان کی تیاری اورعبادت کامہینہ ہے،آپﷺ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان میں ہی رکھتےتھے،بخاری شریف کی حدیث نمبر1969میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ آپﷺ کےمتعلق فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِﷺيَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ(صحيح البخاري)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نفلی روزے رکھتے تو رکھتے ہی چلے جاتے یہاں تک کہ ہم آپس میں کہتےکہ اب آپﷺافطار ہی نہیں کریں گے، اسی طرح جب روزے چھوڑتے تو چھوڑتےہی چلے جاتے یہاں تک کہ ہم آپس میں کہتےکہ اب آپﷺ روزے رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نےآپﷺکو رمضان کےعلاوہ کبھی پورے مہینے کےروزے رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپﷺ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ نفلی روزے رکھتے آپﷺ کو نہیں دیکھا۔

اسی طرح ابوداؤدشریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں:
كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَصُومَهُ شَعْبَانُ ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ.(سنن أبى داود)
ترجمہ:ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔

شعبان میں روزے رکھنےپرکئی صحیح احادیث موجودہیں،آپ ﷺکامعمول بھی شعبان کےاکثرمہینہ میں روزے رکھنےکاتھا، لہٰذا ہمیں بھی شعبان میں روزےرکھنےکی سنت پرعمل کرنےکااہتمام کرناچاہئے۔لیکن یہ بات ذہن میں رہےکہ شعبان سےایک دو دن پہلےروزہ نہ رکھیں تاکہ رمضان کیلئےطبیعت  میں چستی ونشاط پیدا ہوجائے،بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی رمضان سے ایک دو دن پہلے روزے نہ رکھے،البتہ اگر کسی کو ان دنوں میں روزہ رکھنے کا معمول ہوتو وہ شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔(بخاری)

شب برأت کی فضیلت اور راہِ اعتدال

شعبان کی پندرہ  تاریخ کی رات کوشبِ برأت کےنام سےیادکیاجاتاہے، اس رات کے متعلق اکثر لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس رات کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں یکلخت موضوع و من گھڑت قراردیدیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات،رسومات اورخودساختہ امورداخل کردیئےہیں،عبادت کے نام پر ایسےایسے منکرات سرانجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ، دونوں طریقے راہِ اعتدال سےہٹے ہوئے ہیں،اس بارے میں معتدل نظریہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت کسی حدتک ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ زیادہ سےزیادہ مستحب کہہ سکتےہیں،سرے سےاس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اوراس رات کویا اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔

شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم فرماتےہیں کہ شب ِ برأت کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی کسی قسم کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں  تویہ بات بالکل غلط ہے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور سندکےاعتبارسےان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے،ان کی یہ بات درست نہیں ہے،یہاں پردو باتیں پیشِ نظر ہیں:

پہلی بات یہ ہے کہ حضرات محدثین اور فقہاءکا احادیث سےمتعلق یہ اصول و ضابطہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی دیگر احادیث سے ہوجائے تو اس سندکی کمزوری دور ہوجاتی ہے۔

دوسری بات یہ ہےکہ  محدثین وفقہاءکے نزدیک یہ بھی ضابطہ ہے کہ جو بھی ضعیف روایت مؤید بالتعامل ہو وہ مقبول ہوتی ہے،یعنی سند کے اعتبارسےکسی ضعیف روایت پرخیرالقرون سےامت کاعمل چلاآرہاہوتووہ حدیث مقبول ہوتی ہے،اور لیلۃ البرأت میں امت کا تعامل بیداری اور عبادت کا خاص اہتمام کرنے کاچلاآ رہا ہے۔اس رات کی فضیلت سےمتعلق بطورمثال چنداحادیث نقل کردیتاہوں:

ترمذی شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سےروایت ہے،جس میں آپﷺ فرماتےہیں:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ
ترجمہ:اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں تاریخ کو آسمانِ دنیا پرتشریف(کمایلیق بشانہ) لاتےہیں، اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سےبھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

 شُعب الایمان للبَیہَقی میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَتَدْرِينَ أَيَّ لَيْلَةٍ هَذِهِ ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: هَذِهِ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَطْلُعُ عَلَى عِبَادِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِينَ، وَيَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِينَ، وَيُؤَخِّرُ أَهْلَ الْحِقْدِ كَمَا هُمْ " (شعب الإيمان وغيره)
ترجمہ:(اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

شُعب الایمان للبَیہَقی میں ہی آپﷺنےفرمایا:
أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: هَذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلَّهِ فِيهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُورِ غَنَمِ كَلْبٍ، لَا يَنْظُرُ اللهُ فِيهَا إِلَى مُشْرِكٍ، وَلَا إِلَى مُشَاحِنٍ ، وَلَا إِلَى قَاطِعِ رَحِمٍ، وَلَا إِلَى مُسْبِلٍ ، وَلَا إِلَى عَاقٍّ لِوَالِدَيْهِ، وَلَا إِلَى مُدْمِنِ خَمْرٍ. شعب الإيمان (5/ 363)
ترجمہ: حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائےاور فرمایا:یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابرلوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے، لیکن اس رات مشرک،کینہ رکھنے والے، قطع رحمی کرنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی کی طرف نظر(رحمت) نہیں فرماتے۔
ان احادیث سے شبِ برأت کی فضیلت کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ  اس مغفرت کی رات میں بھی بعض بدنصیب لوگ ایسے ہیں جن کی مغفرت نہیں ہوتی،جن میں  مشرک،بغض رکھنے والا،کینہ رکھنے والے، قطع رحمی کرنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، والدین کا نافرمان اور شراب کے عادی شامل ہے، ہمیں چاہئے کہ اس فضیلت والی رات میں  ہم ان بدنصیب افراد کی فہرست میں شامل نہ ہوں۔

عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں
ان تمام باتوں سےمعلوم ہواکہ یہ عبادت کی رات ہےالبتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ممکن ہووہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔اورعبادت اس حد تک کریں کہ اس  کی وجہ سےفجر کی نمازقضاءنہ ہو۔

پندرہ شعبان کا روزہ
ایک مسئلہ شب برأت کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے، ذخیرہ احادیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برأت کے بعد والے دن روزہ رکھو،لہذابعض علماءنےاس روزہ کو مستحب قراردیا،لیکن یہ روایت چونکہ ضعیف اورصرف ایک ہی روایت ہے تو بعض علماءکےنزدیک اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینادرست نہیں، البتہ شعبان کےپورے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہےجیساکہ ابتداءمیں کچھ احادیث ذکرکی ہیں،اسی طرح آپﷺکا ہراسلامی مہینےمیں ایامِ بیض کےروزےرکھنےکامعمول تھا،جس میں سےپندرہ تاریخ کا روزہ بھی ہے،ان تمام جہات کے اعتبارسےاگرکوئی پندرہ شعبان کا روزہ رکھ لیتاہےتویہ عمل ثواب سےخالی نہ ہوگا۔

شبِ برات میں قبرستان جانا
اس رات میں ایک اورعمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت محمدﷺجنت البقیع میں تشریف لے گئے،اب چونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان بھی شبِ برات میں قبرستان  جانےکاہتمام کرنے لگ گئے،بلکہ بعض لوگ اس معاملہ میں بےحدغلو تک پہنچ گئے، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب قدس  سرہ اس معاملہ میں بہت مفید بات فرمایاکرتےتھے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، وہ فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سےشبِ برأت میں صرف ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے،اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا،اس کوضروری سمجھنا، اوراس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی ، یہ اس کو اس کے درجہ سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔

شبِ برأت کی چندبدعات و رسومات
۱۔اعلانات واشتہارات کےذریعہ لوگوں کومساجدمیں پوری پوری رات بیدارکرنےکیلئےجمع کرناشرعی حدود سے تجاوز عمل ہےکیونکہ اس رات میں انفرادی طورپر عبادت کااہتمام کرناچاہئےاوربالفرض بیان کاانتظام کیاجائےتو مختصربیان کیاجائےتاکہ اس کےبعدلوگ انفرادی طور پرعبادت کرسکیں،اگربیانات کاسلسلہ اتناطویل کیاجائےجس کےبعد لوگ انفرادی عبادت ہی نہ کرسکیں یہ بھی حد سے تجاوز شمار ہوگا،اس سے بھی اجتناب کرناچاہئے۔

۲۔شب برأت میں سورکعات ایک ہزار مرتبہ سورت اخلاص کے ساتھ پڑھنے والی روایت یاچودہ رکعات والی روایت موضوع،من گھڑت اوربناوٹی ہے،لہٰذا اس سےاجتناب لازمی ہے۔

۳۔شب برأت میں حلوہ  وغیرہ  پابندی سے پکانا اور اس کے بغیر شب برأت کی فضیلت سے محروم ہونے کا نظریہ رکھنا،یافوت شدہ افراد کی روحوں کا گھروں میں آنے کانظریہ رکھنااوران کی نیت سے حلوہ وغیرہ پکانااوریہ عقیدہ رکھنا کہ اگر نہ پکایاجائےتووہ گھروں کی دیواریں چاٹ کرچلی جاتی ہیں،یہ سب نظریات وعقائد بالکل غلط ہیں اور ان سےاجتناب ضروری ہے۔اسی شب براءت میں مسور کی دال پکانے کو ضروری سمجھنابھی درست نہیں ہے۔

۴۔شبِ برأت کومُردوں کی عید سمجھنا ، یااگر کوئی شخص شب برأت سے پہلے مرجائے اور جب تک شب برأت میں حلوہ پور ی اور چپاتی پر فاتحہ نہ کی جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا ہے،غلط عقائد میں سےہے۔

۵۔شب برأت میں آتش بازی کرناہندوانہ طرزِ عمل ہے ،اس میں گناہ کے ساتھ ساتھ پیسے کا ضیاع بھی شامل ہے، اس لئےاس سےخود بھی بچیں اور اپنی اولاد کوبھی اس بری حرکت سے بچائیں۔

۶۔پندرہویں شعبان سے ایک دو دن پہلے قبروں کو درست کرنا،لپائی کرانااورپندرہویں شعبان کی رات کو اس پر چراغاں روشن کرنا ،قمقمہ جلانا،پھول پتیاں چڑھانا،اگربتیاں جلاناوغیرہ یہ سب ہندوانہ رسم ورواج ہیں، اسلام کا ان رسم و رواج سےدور کابھی واسطہ نہیں ہے،اس لئے ہم پر ان بدعات و رسومات سے  اجتناب کرناضروری ہے۔

خلاصہ :
اس تحریر کا خلاصہ یہ ہےکہ جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں،جن کی اسناد کاضعف دیگرروایات کی وجہ سےکم یاختم ہوچکاہواوران روایات پرامت کاتعامل بھی رہاہوتو  اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ہے،صحیح بات یہ ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے،تاہم اس فرض وواجب نہ سمجھاجائے،اوراس میں بدعات کوفروغ نہ دیاجائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم اور راہ اعتدال پرچلنےکی توفیق عطاءفرمائے،اورہرقسمی بدعات  ورسومات سےمحفوظ رکھے، آمین.

تحریر:محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی،فاضل ومتخصص دارالعلوم کراچی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں