اتوار، 29 اپریل، 2018

پاکستان ایک پرسکون ملک ہے۔

چند دن قبل اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں ایک ڈنر پر مدعو تھا۔ کھانے کے دوران میزبان بتا رہے تھے کہ میں کینیڈا میں سیٹل ہوں۔ بچے ادھر ہی ہیں۔اور میں چند دن بعد واپس جا رہا ہوں۔
میں نے پوچھا پاکستان میں اتنی جائداد اور مالی اسودگی کے باوجود آپ کینیڈا کیوں سیٹل ہوئے ہیں؟
کہنے لگے ایک تو وہ بہت ایڈوانس ملک ہے اوردوسرے پرسکون اور امن والا ملک ہے۔
میں نے جوابا کہا کہ تھوڑی سی توجہ چاہتا ہوں۔ میں نے کہا مجھے یا د ہے جب ہمارے ملک میں موبائل فونز کا انقلاب بلکہ سیلاب اور کاغز چنچنے والوں کے ہاتھ میں بھی موبائل آ گئے تو اس وقت کینیڈا میں خاص خاص اور امیر لوگوں کے پاس ہی موبائل تھا۔ ابھی وہاں موبائل خاصے مہنگے تھے اور ہمارے رشتے دار بچے ماں باپ کو تنگ کرتے تھے کہ ہمیں بھی فون لے کر دو۔ یہ بات ثابت کرتی ہے۔کہ ہم اس پہلو سے کینیڈا سے خاصے آگے تھے اور ہیں۔
میں نے بتایا کہ جب پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب آیا اس وقت بھی کنیڈا ابھی انقلاب کی راہ دیکھ رہا تھا۔جب ہمارے عام گھروں میں بھی کمپیوٹر پہنچ گئے تھے تو اس وقت بھی کنیڈا میں ابھی خاص لخاص لوگوں تک پہنچے تھے۔ ہمارے کینیڈین رشتے دار جیلسی محسوس کرتے کہ پاکستان میں کمپیوٹر اتنا زیادہ عام ہو گیا ہے۔اور ان کے گھروں میں کمپیوٹر بعد میں آیا ہے۔
عام لائن فون اور ٹی وی چینلز کے حوالے سے بھی ہم ان سے آگے ہیں۔وہ ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے پیں۔
میں نے کہا جہاں تک امن اور سکون کا تعلق ہے۔ وہ بھی سنیئے۔
کنیڈا میں ہمارے کزن نے بچوں کے لئے لیپ ٹاپ خریدا۔گاڑی میں رکھا۔ان کو دوکان میں تھوڑی دیر کے لئے جانا پڑ گیا ۔وہ کہتے ہیں ہمیں یہ معلوم تھا کوئی نہ کوئی گاڑی کا شیشہ توڑ کر سامان چوری کر لے گا (اس لائن کو ایک سے زیادہ بار پڑھیے)
کہتے ہیں ہم اس خطرے کو زہن میں رکھتے ہوئے بہت تھوڑی دیر کے لئے 3 سے 5 منٹ کے لئے گئے۔ واپس آئے تو واردات ہو چکی تھی۔ شیشہ توڑ کر کوئی لیپ ٹاپ چوری کر کے لے جا چکا تھا۔
اب زرا دنیا میں امن کا گہوارہ مانا جانے والے شہر لندن کا حال سنئے۔ 1990 میں میرے بھائی لندن گئے۔ اپنے عزیزوں کی ایک محفل میں مقامی سٹریٹ کرائمز کی بات چل نکلی۔ کل 15 افراد تھے جن میں سے 13 افراد کافی عرصہ سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔
ان 13 افراد نے اپنی اببیتی سنائیں تو پتہ چلا ہر ایک کے ساتھ دو چار بار کوئی نہ کوئی واردات ہو چکی ہے۔کسی سے کوئی ڈاکو سامان چھین کر لے گیا۔ کوئی جیب خالی کر گیا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اب ہم ڈاکو بھائی کے لئے جیب میں پیسے لے کر گھر سے نکلتے ہیں۔کسی گاڑی میں سامان رکھ کر ادھر ادھر جاو تو یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ کوئی شیشہ توڑ کر سامان لے جائے گا۔
مجھے یہ معلومات 2000 کے قریب ایک خاندانی میٹنگ میں برسبیل تذکرہ ملیں تو اگلے دن میں گوجرخاں کالج میں اپنی کلاس میں گیا تو میں اپنی کلاس کے 60 لڑکوں سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ اگر اس طرح کی کوئی واردات ہوئی ہے تو ہاتھ کھڑا کرو۔
مگر کسی نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا ۔
پھر ان کو بتایا کہ لندن میں 13 افراد بات کر رے ہیں تو سب کے ساتھ دو چار بار واردات ہو چکی ہے مگر یہاں 60 لوگ ہیں اور کسی کے ساتھ ایک واردات بھی نہیں ہوئی۔
کینیڈا کے میزبان نے ان باتوں کو تسلیم کیا اور لاجواب ہو گیا۔
آج جب ہمارا میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کے پروجیکٹ پر عمل کرتے ہوئے کسی دور دراز ضلع کے کسی گاوں کا واقعہ بریکنگ نیوز کے طور پر بتاتے ہوئے کسی خاندانی جھگڑے میں زخمی ہونے والے لوگوں کی تعداد بتاتا ہے تو اس میں بھی ایک لحاظ سے پاکستان کے پرامن ہونے کی گوائی دے رہا ہوتا ہے کہ دیکھو پنجاب کے 40 ضلعوں میں امن ہے۔ سندھ کے سارے ضلعوں میں امن ہے صرف فلاں ضلع کے فلاں گاوں میں یہ واقعہ ہوا ہے۔
ان چھوٹے واقعات کا خبر بننا ملک کے امن کی نشاندہی کرتا ہے۔ جیسے کمرے میں مکمل خاموشی ہو تو ایک پن کے گرنے کی آواز بھی لوگو کی توجہ کھینچ لے گی۔اور اگر کسی فیکٹری میں جہاں بہت شور ہو وہاں شیشے کا گلاس فرش پر گر کر ٹوٹ کر بھی لوگوں کی توجہ نہیں کھینچ سکے گا۔
پاکستان کی قدر کرو۔
اپنی درہتی سے پیار کرو۔
پاکستان کے لئے دعاگو۔
پروفیسر منور احمد ملک