منگل، 9 جنوری، 2018

بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں انتہائی خوفناک ملاوٹ

بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے‘ دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے‘ یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کےلئے بھینسوں کو ہارمون کے انجیکشن لگاتا ہے‘ یہ انجیکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل سٹورز سے عام مل جاتے ہیں‘ یہ سستے بھی ہوتے ہیں‘ یہ انجیکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے‘ یہ فوراً دودھ دے دیتی ہے‘ یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہے‘یہ ہارمون بچوں کی صحت کےلئے نقصان دہ ہیں‘ گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں‘ یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچدیتے ہیں‘ دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے‘ گوالے پتلے پن کو چھپانے کےلئے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاﺅڈر (سرف) ڈال دیتے ہیں‘ڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے‘ یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کےلئے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاﺅڈر ڈالتے ہیں‘ بلیچنگ پاﺅڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے.
 یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہے‘بیوپاری اس میں یوریا کھاد‘ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘ بورک پاﺅڈر‘ پنسلین‘ ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں‘ یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں‘ یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتےہیں‘ بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں‘ چائے خانوں‘ ریستورانوں‘ دودھ دہی کی دکانوں‘ سٹورز‘ مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں‘ یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے‘ یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کےلئے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے‘یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں‘ ہم اب ٹیٹرا پیک‘ بوتل ‘ لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں‘ یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں‘ کیسے؟ آپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ ٹیٹرا پیک کےلئے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے‘ یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے‘ یہطریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے‘ کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کےلئے اس میں خشک دودھ‘ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں‘ یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے‘ دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے‘یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل‘ پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں‘ یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہٰذ دودھ فروش گوالے‘ بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیں‘پیچھے رہ گیا خشک دودھ‘ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ‘ دودھ بھی نہیں ہوتا‘ یہ پاﺅڈر مِلک اور کیمیکلز کامرکب ہوتاہے‘ کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ‘ پام آئل‘ چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں‘ یہ دودھ ”ٹی وائیٹنر“ کہلاتا ہے‘ یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے‘ آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں‘ یہ بیکری کی مصنوعات‘ مٹھائیوں‘ ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہےں‘ یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں‘ یہ 20 کیمیکل بیکریوں‘ مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں‘ ان میں مصنوعی رنگ‘مصنوعی خوشبو‘ پلاسٹک‘ دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا‘ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتا‘آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ‘ ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے‘ ہم دودھ‘ بیکری اور خوراککے نام پر زہر کھا رہے ہیں‘ یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے‘ ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں‘ یہ بیرسٹرظفر اللہ کی مہربانی ہے‘ یہ آگے بڑھے اور انہوں نے ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں‘ یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔
آپ یقین کیجئے ہمارے ملک میں بکریاں‘ مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیں‘یہ خالص چارہ کھاتے ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ فعال ہیںجبکہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ دودھ دیکھ بھال کر خریدا کریں‘آپ دودھ کامعائنہ بھی ضرور کروائیں‘ چائے میں خشک دودھ کا استعمال بند کر دیں‘ آپ آئس کریم ‘بیکری آئٹم‘ مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا استعمال بھی کم کر دیں‘ آپ گروپس بنائیں‘ یہ گروپس اپنی بھینسوں یا گائےوں کا بندوبست کریں اور دودھ کا انتظام کر لیں‘یہ آپ کا اپنے اور اپنے خاندان پر عظیم احسان ہوگا۔میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر جسٹس ثاقب نثار اس ملک کے عوام کو خالص دودھ فراہم کر دیتے ہیں‘ یہ اگر یہ آوا ٹھیک کر دیتے ہیں تو یہ دس حکومتوں اور دس عظیم قائدین سے بڑے قائد ثابت ہوں گے‘ قوم کھڑے ہو کر انہیں سیلوٹ کرے گی اور اگر یہ بھی ناکام ہو گئے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘ پھرنریندر مودی کو پاکستانیوں کو مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ پاکستانی دودھ پی پی کر مرتے چلے جائیں گے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں