وقت
تتلی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسکی زندگی کا دورانیہ صرف ایک روز یعنی چوبیس گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے. سوچتا ہوں کہ بحیثیت انسان مجھے اس کی زندگی انتہائی مختصر نظر آتی ہے.
مگر ان ہی چوبیس گھنٹوں میں یہ تتلی پیدا ہوتی ہے، بچپن گزارتی ہے، لڑکپن میں داخل ہوتی ہے، جوان ہوجاتی ہے، ادھیڑ عمری سے گزرتی ہے، بڑھاپا سہتی ہے اور پھر مر جاتی ہے.
اس ایک دن کے دورانیئے میں گویا وہ زندگی کے ہر اس دور سے گزرتی ہے، جس سے ایک انسان اپنی ساٹھ ستر برس کی زندگی میں گزرا کرتا ہے. "وقت" کا گزرنا یا اس کا طویل یا مختصر ہونا فقط ہماری سوچ ہے، زاویہ نظر ہے. جو ہمارے لئے مختصر ہے، بہت ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے بہت طویل ہو. اور جو ہمارے لئے طویل ہے، عین ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے انتہائی مختصر ہو.
کئی بار جب ہم اپنی دھن میں مست ہوں تو گھنٹے ایسے گزرتے ہیں جیسے ایک لمحہ گزرتا ہو. لیکن حالت انتظار یا اضطرار میں ایک لمحہ بھی سالوں پر محیط محسوس ہوتا ہے. بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواب میں ہم پاکستان سے انگلینڈ تک کئی ممالک گھوم آتے ہیں مگر اچانک جو بیدار ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ صرف دو منٹ کی جھپکی تھی. کچھ ایسا ہی اس وقت درپیش ہوگا جب ہمیں روز جزاء میں حاضری کیلئے موت سے بیدار کیا جائے گا.
یہ نئی منتظر دنیا جہاں اور بہت سے فطری قوانین اور زاویوں سے ہماری موجودہ دنیا سے مختلف ہوگی. وہاں وقت کی تعریف اور گزری زندگی کے دورانیئے سے متعلق ہمارے احساس کو بھی بدل دے گی. آج ہمارا ذہن وقت کے اختصار یا طوالت کا فیصلہ حاضر حالات و تجربات کی روشنی میں کرتا ہے. کل حیات اخروی میں یہی ذہن ہمیں اس وقت موجود حالات و انکشافات کی روشنی میں وقت کی نئی تصویر فراہم کرے گا. قران حکیم کی کچھ آیات ملاحظہ ہوں
.
" اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تم زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ وه کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجیئے. اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی سے جان لیتے؟" (سورہ المومنون ١١٢ سے ١١٤)
.
"اور ان کو وه دن یاد دﻻئیے جس میں اللہ ان کو جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وه (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے۔ واقعی خسارے میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وه ہدایت پانے والے نہ تھے" (سورہ یونس ٤٥)
.
====عظیم نامہ====
مگر ان ہی چوبیس گھنٹوں میں یہ تتلی پیدا ہوتی ہے، بچپن گزارتی ہے، لڑکپن میں داخل ہوتی ہے، جوان ہوجاتی ہے، ادھیڑ عمری سے گزرتی ہے، بڑھاپا سہتی ہے اور پھر مر جاتی ہے.
اس ایک دن کے دورانیئے میں گویا وہ زندگی کے ہر اس دور سے گزرتی ہے، جس سے ایک انسان اپنی ساٹھ ستر برس کی زندگی میں گزرا کرتا ہے. "وقت" کا گزرنا یا اس کا طویل یا مختصر ہونا فقط ہماری سوچ ہے، زاویہ نظر ہے. جو ہمارے لئے مختصر ہے، بہت ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے بہت طویل ہو. اور جو ہمارے لئے طویل ہے، عین ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے انتہائی مختصر ہو.
کئی بار جب ہم اپنی دھن میں مست ہوں تو گھنٹے ایسے گزرتے ہیں جیسے ایک لمحہ گزرتا ہو. لیکن حالت انتظار یا اضطرار میں ایک لمحہ بھی سالوں پر محیط محسوس ہوتا ہے. بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواب میں ہم پاکستان سے انگلینڈ تک کئی ممالک گھوم آتے ہیں مگر اچانک جو بیدار ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ صرف دو منٹ کی جھپکی تھی. کچھ ایسا ہی اس وقت درپیش ہوگا جب ہمیں روز جزاء میں حاضری کیلئے موت سے بیدار کیا جائے گا.
یہ نئی منتظر دنیا جہاں اور بہت سے فطری قوانین اور زاویوں سے ہماری موجودہ دنیا سے مختلف ہوگی. وہاں وقت کی تعریف اور گزری زندگی کے دورانیئے سے متعلق ہمارے احساس کو بھی بدل دے گی. آج ہمارا ذہن وقت کے اختصار یا طوالت کا فیصلہ حاضر حالات و تجربات کی روشنی میں کرتا ہے. کل حیات اخروی میں یہی ذہن ہمیں اس وقت موجود حالات و انکشافات کی روشنی میں وقت کی نئی تصویر فراہم کرے گا. قران حکیم کی کچھ آیات ملاحظہ ہوں
.
" اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تم زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ وه کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجیئے. اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی سے جان لیتے؟" (سورہ المومنون ١١٢ سے ١١٤)
.
"اور ان کو وه دن یاد دﻻئیے جس میں اللہ ان کو جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وه (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے۔ واقعی خسارے میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وه ہدایت پانے والے نہ تھے" (سورہ یونس ٤٥)
.
====عظیم نامہ====
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں