تازہ ترین
لوڈ ہو رہی ہے

اتوار، 1 ستمبر، 2013

یہ رہا تیرا کرایہ

میرے ناناجی سیدھے سادھے کھرے انسان تھے۔ اُن کا ضمیر شفاف تھا۔ معمولی سی غلطی پر بھی وہ اپنے ضمیر کی سرزنش
کو محسوس کر لیتے تھے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے تھے جس سے اُن کو کسی بے چینی سے دوچار ہونا پڑے۔ ہر انسان کی اپنی طبیعت، اپنی فطرت ہوتی ہے۔ مزاج اور عادات میں بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جو میں اِن صفحات میں لکھنے لگا ہوں۔ یہ سادگی پر مبنی کہانی ہے۔ آج سے ۵۰،۶۰؍ سال قبل کے دور پر ہم تصوراتی نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اُس دور میں سیدھے سادھے خوش خلق باضمیر انسانوں کی بہتات تھی۔
جبکہ آج کے دور میں یہ چیز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کہیں کوئی ایک انسان ایسا نظر آجائے توہم حیران رہ جاتے ہیں کہ اس جدید مشینی دور میں یہ سادگی کیونکر ممکن ہے۔ آج کے بچے بھی بلا کے ہوشیار ہیں۔ یہ جدید دور ہے۔ سادگی، شرافت، بھائی چارہ، حسنِ اخلاق، محبت، اخوت، یہ سب دم توڑتے نظر آ رہے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ پرانے دور میں یہ سب کچھ عام دیکھنے کو ملتا تھا۔ ٹریفک کا اتنا اژدھام بھی نہیں ہوتا تھا۔  
جدید قسم کی گاڑیاں نہیں تھیں۔ ٹرین کا سفر ہوتا تھا یا کھٹارہ قسم کی بسیں ہوتی تھیں۔

لوگ اِدھر اُدھر سفر بہت کم کرتے تھے۔ جب سفر کرنے کا موقع آتا تو خوب لطف اٹھاتے تھے۔ منزل پر پہنچنے کی جلدی نہیں
 ہوتی تھی۔ دوران سفر کھڑکی کے قریب بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے کہ باہر کے مناظر دیکھے جائیں۔ ہمارا سفر بہاول پور سے خان پور اور خان پور سے بہاول پور تک محدود تھا۔ کراچی کا صرف نام سنا تھا۔ مختلف افواہیں مشہور تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ ٹرین تین، چار دن بعد کراچی پہنچتی ہے۔ کراچی پرستان کی طرح مشہور تھا۔ لوگ دل میں تمنا رکھتے تھے کہ کراچی شہر دیکھا جائے مگروہاں
جانے کے وسائل کسی کے پاس نہ تھے۔ کئی بوڑھے تو اپنے گائوںیا گوٹھ تک تمام عمر محدود رہے۔ گھر سے نکلنا، کھیتوں میں کام کرنا اور گھر چلے جانا، یہ تھی زندگی۔ ہمارے گائوں سے ۳؍ میل دور گڑھی اختیار خان واقع ہے۔ ہمارے پھوپھا کا نام نظام دین تھا۔ نظام دین اپنی پوری زندگی میںگڑھی اختیار خاں تک نہ جا سکا۔ یہ تھی زندگی۔ ناناجی کبھی کبھار خان پور سے بہاول پور آتے اور چند روز رہ کر چلے جاتے تھے۔ سفر تفریح کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایک بار ناناجی بہاول پور آئے۔ چند روز ہمارے پاس رہے ۔ پھر واپس جانے کی تیاری کر لی۔ میرے چچا جی ذرا جلدباز اور غصے والے انسان تھے۔ انھوں نے بھی ہمارے نانا کے ہمراہ خان پور جانے کا ارادہ کرلیا۔ اُن دنوں ریلوے اسٹیشن تک جانے کے لیے تانگے ہوتے تھے یا پھر پیدل ہی یہ معمولی سفر کر لیا جاتا تھا۔

روپے پیسے بہت کم ہوتے تھے۔ بچت اسکیم پر عمل کیا جاتا تھا۔ میرے ناناجی میرے چچا کے چچا تھے۔ دونوں نے صبح کو تیاری کی اور رومال میں روٹیاں، اچار باندھ کر پیدل ہی اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے۔ دو ڈھائی میل کی مسافت تھی۔ یہ سفر ان کے لیے معمولی بات تھی کیونکہ وہ ۱۰، ۱۲؍ میل تک کا سفر بھی پیدل کرنے کے عادی تھے۔ خان پور سے گڑھی اختیار خان دس، بارہ؍ کوس میل دور ہے۔ اس سے آگے ہمارا گائوں جسے بستی دُھکڑاں کہتے ہیں، ۳؍ میل دور ہے۔ یہ کل اٹھارہ، بیس میل کی مسافت تھی۔
یہ مسافت بھی وہ کبھی کبھار پیدل ہی طے کر لیتے تھے۔ پیدل سفر سے وہ گھبراتے نہیں تھے۔ یہ دونوں جب اسٹیشن پہنچے اس وقت لُنڈی پسنجر اسٹیشن پر آ چکی تھی اور جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ٹکٹ گھر پر ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ اگر یہ ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہو جاتے تو پسنجرٹرین چلی جاتی۔ یہ ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ پھر دوسرے دن تک سفر ملتوی کرنا پڑتا۔ ان کو یہ پسنجرٹرین تیزرفتار ٹرینوں سے زیادہ پسند تھی۔
کیونکہ یہ ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکتی تھی۔ اس کا رکنا، چلنا اور پھر جنکشن اسٹیشن پر زیادہ دیر کھڑے رہنا ناناجی کو پسند تھا۔ وہ ٹرین کے سفر سے بہت زیادہ محظوظ ہوتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے ٹرین میں بیٹھا رہوں، نیچے نہ اتروں۔ خان پور کٹورہ سے بہاول پور آتے ہوئے جب کبھی لنڈی لیٹ ہو جاتی تو ناناجی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دعا کرتے کہ اللہ کرے سمہ سٹہ جنکشن پر اس کو رات ہو جائے۔ تاکہ بوگیوں کے بلب جل اٹھیں اور میں روشن ڈبوں میں بیٹھ کر ٹرین کے سفر کا صحیح لطف اٹھا سکوں۔ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے تھے۔ اکثر لنڈی مغرب کے وقت سمہ سٹہ پہنچتی اور پھر پون گھنٹہ ٹھہرتی۔ جس سے تاریکی ہو جاتی۔ بوگیوں کے بلب جل اٹھتے۔
ناناجی بچوں کی طرح جلتے بلب دیکھ کر خوش ہوتے۔ پھر چھت میں نصب بلبوں کو تکتے رہتے۔ یہ لنڈی ٹرین روہڑی سے چل کے خان پور دن کے ڈھائی بجے پہنچتی۔ پھر ساڑھے تین بجے وہاں سے چلتی تو ناناجی کی رات ہونے کی دعا رنگ لاتی۔ ہاں البتہ بہاول پور سے جب جاتے دعا قبول نہ ہوتی کیونکہ یہ ٹرین خانیوال سے چل کے صبح ۹؍بجے بہاول پور آ جاتی تھی۔ پھر دن کے دو ڈھائی بجے تک خان پور پہنچ جاتی تھی۔ اس طرح دن کی روشنی میں ٹرین سے اترنا ناناجی کو پسند نہ تھا۔ بہاول پور سے خان پور تک کل ۱۴؍ اسٹیشن تھے۔ ناناجی چاہتے تھے کہ ہر اسٹیشن پر ٹرین رکتے چلتے منزل کی طرف بڑھے تو مزہ آتا ہے۔

اُن کو اِن تمام اسٹیشنوں کے نام بھی یاد ہو گئے تھے۔ جو وہ تفصیل سے ہمیں بتا دیتے تھے بہاول پور، سمہ سٹہ، کلانچ والا، مبارک پور، ٹبی عزت، ڈیرہ نواب صاحب، کلاب، چنی گوٹھ، میتلا، تنواری، فیروزہ، لیاقت پور، جیٹھی بُٹھہ، خان پور جنکشن۔ ناناجی کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ لنڈی پسنجر سب ٹرینوں سے زیادہ چلتی ہے۔ اس کا مقابلہ ڈاک میل یعنی تیز گام بھی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ لنڈی کے مسافر تھے۔ اس لیے اسی کے گُن گاتے رہتے تھے۔ ایک اور گاڑی آتی تھی جس کا نام وزیر آباد تھا۔ کبھی لنڈی خانیوال سے آتے ہوئے لیٹ ہو جاتی تو ناناجی وزیرآباد ٹرین میں سوار ہو جاتے۔
جس کی بوگیوں میں سیدھی سبز رنگ کی پھٹیاں لگی ہوتی تھیں اور برتھوں میں زنجیر لگے ہوتے تھے۔ ان پھٹیوں کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دیار کی لکڑی ہے۔ دیار کی لکڑی کو کافی مضبوط مانا جاتا تھا۔ وزیرآباد گاڑی بہاول پور سے چل کے اگلے اسٹیشن سمہ سٹہ جنکشن پر ختم ہو جاتی تھی۔ ناناجی لنڈی کے آنے تک وزیرآباد کے ڈبوں میں مختلف جگہوں پر بیٹھ کر دل پشوری کرتے رہتے تھے۔ ٹرین سے عشق کا یہ عالم تھا۔‘‘
ویسے ریل کی پٹڑی پر کئی ڈبوں کا ایک ساتھ چلنا سب کو پسند تھا۔ لوگ کھڑکی سے سر نکال کر ٹرین کی لمبائی سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ درختوں کا پیچھے دوڑنا، کھمبوں کا پیچھے رہ جانا، نہروں کے اوپر سے گزرنا، دریا کے پل سے گزرنا، یہ سب ریل کے سفر میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ لوگ ریل کا سفر بڑے شوق سے کرتے تھے۔ لمبے سفر سے بور نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت لوگ ریل کے قصیدے پڑھتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ دوچار جگہ رک گئی تو فوراً مسافر چلا اٹھتے ہیں۔ یہ ٹرین ہے یا چھکڑا۔‘‘

میرے چچا مولوی صادق صاحب نے بھانپ لیا کہ اگر ہم ٹکٹ کے چکر میں پڑے تو لنڈی چلی جائے گی۔ انھوں نے میرے نانا سے کہا آئو میرے ساتھ۔ ٹی ٹی کو پیسے دے کر ٹکٹیں بنوا لیں گے۔ وقت کم ہے، گاڑی نکل جائے گی۔ سردیوں کے دن تھے۔ وہ دونوں تیزی سے پلیٹ فارم پر پہنچے۔ گاڑی رینگنے لگی تھی۔ وہ دونوں بھاگ کر ایک بوگی میں سوار ہو گئے۔ بوگی میں لمبی سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ وہ ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میرے چچا نے اپنا کمبل تہہ کرکے نیچے رکھ لیا تاکہ سیٹ آرام دہ ہو جائے۔
میرے ناناجی کھڑکی کی طرف بیٹھ گئے اورباہر کے نظاروں میں کھو گئے۔ ٹرین چلتی، رکتی خان پور کے قریب پہنچ گئی۔ کوئی بھی ٹکٹ چیکر بوگی میں نہیں آیا۔ جب منزل قریب آ گئی تو ناناجی کو بغیر ٹکٹ سفر کرنے کا افسوس ہونے لگا۔ ان کے ضمیر نے ملامت شروع کردی۔ ضمیر کی خلش سے تنگ ہو کر انھوں نے جیب سے کچھ رقم نکالی اور اپنے بھتیجے کی نظر بچا کر سیٹ کے کونے پر رکھ دی۔ کھڑکی کے قریب دیوار پر ہاتھ رکھ کر ناناجی آہستہ سے گاڑی سے مخاطب ہوئے، مائی لُنڈی!… ناراض نہ ہونا، ہم نے ٹکٹ نہیں لیے۔ تیرا کرایہ میں نے سیٹ پر رکھ دیا ہے۔
ٹرین رک چکی تو وہ دونوں عجلت میں نیچے اترے۔ ناناجی مطمئن تھے کہ انھوں نے مائی لُنڈی کو کرایہ دے دیا ہے! ٹکٹ دونوں کے پاس نہیں تھے۔ مین گیٹ سے وہ باہر نہیں جا سکتے تھے۔ چچا جی نے کافی دور جا کر ایک جگہ جنگلے میں خلا دیکھا۔ وہ دونوں وہاں سے باہر نکلے اور لمبا چکر کاٹ کر مین گیٹ کے سامنے ایک ہوٹل میں جا بیٹھے۔ میرے چچا نے دو پیالے دودھ کا آرڈر دیا تاکہ دودھ کے ساتھ روٹی کھائی جاسکے۔

ویسے تو اچار بھی تھا مگر وہ ذائقہ تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ہوٹل سے اُن کو لنڈی ٹرین اسٹیشن پر کھڑی صاف نظر آرہی تھی۔ اُن کو کھانا کھاتے ہوئے آدھا گھنٹہ لگا۔ اس دوران لنڈی نے اپنا وقت پورا کیا اور روہڑی کی طرف چلی گئی۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو اپنی جگہ سے اٹھے۔ اچانک میرا چچا پریشان ہو گیا۔ ناناجی نے پوچھا کیا بات ہے۔ تب چچا جی بولے۔ جلدی میں میں اپنا کمبل تو ٹرین کی سیٹ سے اٹھانا بھول ہی گیا ۔
تب میرے ناناجی بول اٹھے۔ ’’بھئی ضرور تم نے مائی لُنڈی کا کرایہ چُکتا نہیں کیا ہوگا۔ اس لیے وہ تجھ سے ناراض تھی۔ تیرا کمبل ساتھ لے گئی۔‘‘
میرے چچا نے اپنے چچا یعنی میرے ناناجی سے کہا ‘‘ٹکٹ تو تو نے بھی نہیں لیا تھا وہ تیرے ساتھ تو ناراض نہیں ہوئی۔‘‘
میرے ناناجی نے کہا میں نے ٹکٹ نہیں لیا تھا لیکن ٹکٹ کی رقم مائی لنڈی کی سیٹ پر رکھ کر میں نے اسے کہہ دیا تھا، مائی لنڈی یہ رہا تیرا کرایہ۔ میں نے تو مائی لنڈی کو کرایہ ادا کر دیا تھا۔ تو نے کرایہ نہیں دیا۔ اس لیے ناراض ہو کر وہ تیرا کمبل کرائے کے بدلے میں ساتھ لے گئی۔ ناناجی کی بات سن کر چچا جی لاجواب ہو گئے اور انھوں نے عہد کر لیا کہ آئندہ وہ ناراض مائی لنڈی میں بغیر ٹکٹ سفر نہیں کریں گے۔خدا جانے وہ اپنے عہد کو کب تک نبھائیں گے۔
بشیر احمد بھٹی : اردو ڈائجسٹ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں