تازہ ترین
لوڈ ہو رہی ہے

ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

گمنام سپاہی

سترہ ستمبر دو ہزار پانچ کی ایک صبح آزاد کشمیر رجمنٹل کمانڈینٹ کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص، لباس دریدہ ،زبان خاموش ہے اشارے سے بتاتا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر واپس آ گیا۔بولنے سے معذور ہے۔کاغذ پر لکھتا ہے تین تین پانچ ایک تین نو
335139
کیا؟ چالیس سال بعد مقبول حسین؟لیکن وہ تو غائب تھا؟ شہید سمجھے گئے سپاہی کا چہرہ سچائی سے دمک رہا ہے وہ سپاہی ہے
"مقبول حسین"
سپاہی مقبول حسین ستمبر انیس سو پینسٹھ میں کیپٹن شیر کی قیادت میں مشن پر روانہ ہوتے ہیں، ان کے بھائی مکھن خان ،دو بہنیں،ان کی منگیتر ،ان کے والد اور والدہ انھیں اپنی دعاؤں اور نیک تمناؤں کی چھاؤں میں خدا حافظ کہتے ہیں۔یہ مشن مقبوضہ کشمیر میں دشمن کے ٹھکانوں پر حملہ کر کے اس کے اسلحے کے ڈپو اور دوسری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبنی تھا۔تاکہ دشمن کی اس تیاری پر برقت کاری ضرب لگائی جا سکے جو وہ پاکستان پر حملے کے لیے کر رہا تھا۔
مقبول حسین شانے پر وائرلیس سیٹ رکھے،ہاتھ میں رائفل لیے معرکے میں اترتے ہیں۔مشن کی تکمیل کے بعد فورس اپنے بیس کی جانب واپس آتی ہے لیکن سپاہی مقبول حسین دشمن کے فائر کی زد میں آ جاتے ہیں اور دشمن کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔
جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔انھیں جنگی قیدی بھی نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی ان کا اندراج سول قیدیوں میں کیا جاتا ہے۔
انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر کے جنگی قیدیوں کے تبادلے میں بھی ان کا کہیں ذکر نہیں۔۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ان افراد کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں جن کے بارے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ کھو گئے ہیں یا شہید ہو گئے ہیں۔
کون جانے؟ سپاہی مقبول حسین دشمن کی قید میں ایسی اذیتیں برداشت کرتے رہے انسانی ظلم کی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔قیدِ تنہائی،تنگ و تاریخ دن رات،موسموں کی سختی،انسانیت سوز مظالم،جانوروں کی طرح رینگنے کا حکم،جسمانی ایذا کے ایسے ایسے حربے جو حیوانیت اور بربریت کی ناقابل یقین مثال ہیں۔
"
جواب دو بولتے کیوں نہیں ہو؟ سچ بتاؤ پاکستان میں کہاں کہاں فوجی ٹھکانے ہیں تمہیں سب راز اگلنے ہوں گے۔بولو جو کچھ تمہیں ہم کہتے ہیں۔"
سپاہی مقبول حسین پر خونخوار کتے بھی چھوڑے جاتے ہیں جو ان کی پنڈلیاں چپا جاتے ہیں لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے

"
بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

پاکستان زندہ باد،پاکستان زندہ باد۔"

اس قید خانے کی دیواریں مقبول حسین کے خون سے رنگ جاتیں ہیں وہ ہر جگہ لکھ دیتے ہیں

"پاکستان زندہ باد،پاکستان زندہ باد۔"

کاٹ دو اس کی زبان۔۔کاٹ دو

پھران کی زبان کاٹ دی جاتی ہے تا کہ وہ پاکستان جا کر کبھی بھی بتا نہ سکیں کہ ان کے ساتھ کیسا غیر انسانی سلوک رواہ رکھا گیا۔۔۔انھیں نفسیاتی مریض بنا کر پاکستان دھکیل دیا جاتا ہے،
اور جب وہ چالیس سال بعد اس سرزمین پر لوٹتے ہیں تو آج ان کے استقبال کے لیے ان کے گاؤں میں نہ ان کا بھائی مکھن خان تھا اور نہ ان کے ساتھ بچپن میں ان کے ساتھ کھیلنے کودنے والا کوئی شخص ۔۔
بس چند قبریں تھی اور ایک حوصلہ

مگرکون جانے

" جو چپ رہی گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستین کا۔"

اور آج چالیس سال بعد سپاہی مقبول حسین نمبر تین تین پانچ ایک تین نو، ڈیوٹی پر پھر حاضر ہے

گمنـام سپاهى - نہـــاب الرحمن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں