تازہ ترین
لوڈ ہو رہی ہے

جمعہ، 22 مارچ، 2013

سوال زندگی کا

یہ کیسا موت کا رقص ہے، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غم زدہ ہے، مرنے والے کو نہیں پتہ اسے کیوں مارا گیا، اب تودرندوں سے نہیں انسانوں سے خوف آتا ہے۔ سریلے ترانوں کے خالق کہاں ہیں جو یہ کہتے تھے کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔۔۔

ذرا ان جمہوری سرخیلوں کو بلاوٴ جو جمہوری دور کو دودھ اور شہد کی بہتی نہروں سے تشبیہ د یتے ہیں، مگر ان کی طرز حکمرانی نے ملک میں خون کی ندیاں بہا دیں، ملک میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں غیر فطری موت نے دستک نہ دی ہو۔قبرستان آباد ہوگئے،لٹھے کا کاروبار چل نکلا، تابوت بنانے والوں کی چاندی ہوگئی،گورکنوں کے گھر خوشحالی آگئی ہے، مردہ خانے کم پڑ گئے ہیں،گھر ویران اور فلیٹ سستے، مگر قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔ کس عزم سے ہم دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، مرنے والے بھی ہم، مارنے والے بھی ہم۔

پھر انتخابات کا دنگل سجنے جا رہا ہے،پھر شعبدہ بازوں کے بازار لگیں گے، پھر خوش کن نعروں کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے گا، پھر انہیں روشن مستقبل کی نوید سنائی جائے گی۔ ذرا ان شعبدہ بازوں کے سامنے ہلاکتوں کے ان اعدادوشمار کوبھی پیش کریں، کہ ان کی شاندار حکمرانی، بہترین پالیسیوں اور اعلیٰ ظرفی نے کتنے قبرستان آباد کر دیے۔ موت برحق ہے لیکن غیر فطری موت کا اختیار شاید درندوں کو بھی نہیں، پھر ہم کس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

ملکی اور غیر ملکی تھنک ٹینکس اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک بھر میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں ایک دہائی میں 46500پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے جن میں پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں ۔معاشی نقصان80ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، سماجی اورنفسیاتی نقصان تو ایک الگ المیہ ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس خون کی ہولی کے بعدکیا کسی کو سزا ملی یا کوئی قاتل بھی تختہ دار پر لٹکا یا گیا۔ موت کا بازار گرم کرنے والے کہاں سے آئے کہاں گئے، کچھ اتہ پتہ نہیں ۔الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ بات بڑھ نہیں پائی ۔ملک بھر میں صرف 50قاتلوں اور دہشت گردوں کو سر عام پھانسی دی جاتی ۔کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں کسی کھلے مقام پر دس دس افراد کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جاتا اور اسے براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا تو آج ہزاروں معصوم شہریوں کی جان بچ جاتی، یہ بھی معلوم ہے کہ اس طرح کی پھانسی کا آئین میں کوئی ذکر نہیں، ملکی اور غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیمیں وا ویلا مچاتی ہیں، شہریوں اور بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات کے مرتب ہونے کی باتیں کی جاتی ہیں۔۔۔۔ذرا یہ بھی تو بتاوٴکہ ہر روز گاجر مولی کی طرح انسانوں کو جوکاٹا جا رہا ہے،کیا اس کو ٹی وی نہیں دکھاتا، لگتا ہے کہ ایسے دل دوز واقعات کو دیکھ کر ہماری آنکھیں پتھرا چکی ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں